سلیم طاہر
کوزے میں آب، خاک میں دانہ تو ہے نہیں
پھر بھی یہ شہر چھوڑ کے جانا تو ہے نہیں
میں نے تو خود کو تیرے تصرف میں دے دیا
اب دسترس میں، میری زمانہ تو ہے نہیں
سچ بول کر ہی دیکھ لوں شاید وہ مان جاۓ
اس نے مِرے فریب میں آنا تو ہے نہیں
یہ دل، تِرے سلوک پر اب روٹھتا نہیں
یہ جانتا ہے، تُو نے منانا تو ہے نہیں
پھر کس لیے ہیں نیند کی دیدہ دلیریاں
آنکھوں نے کوئ خواب دکھانا تو ہے نہیں
رختِ سفر میں اپنے دعائیں بھی باندھ لو
واں سے کسی نے لوٹ کے آنا تو ہے نہیں
ناپیں گے سوتے جاگتے طولِ شبِ فراق
تم نے ہمارے خواب میں آنا تو ہے نہیں
حیراں ہو کس لیے مِری حالت کو دیکھ کر
اس عاشقی کا کوئی زمانہ تو ہے نہیں
پھرتا ہے اب عدو مِری آنکھوں کے آس پاس
وہ جانتا ہے اس کا نشانہ تو ہے نہیں
دھوتے ہیں اشک، روز، پرانے نوادرات
آنکھوں کے پاس اور خزانہ تو ہے نہیں
بیٹھا رہوں گا چھپ کے اندھیرے کی آنکھ میں 
میں نے کوئ چراغ جلانا تو ہے نہیں
ممکن نہیں ہے تم سے ملاقات اور ہو
اور، میرے پاس کوئ بہانہ تو ہے نہیں
No comments:
Post a Comment